قرآن کریم کی ایک آیت میں خداوند تعالیٰ اپنے بندوں کو پہاڑوں کے بارے میں تدبر کی دعوت دیتا ہے:
اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑ دیئے گئے ہیں۔
(الغاشیہ: ۱۹)
وہ سوالات جو اتیسٹوں کو اس تدبر کے بارے میں جواب دینے چاہئیں یہ ہیں کہ اس اتنی بڑی کائنات کے فرض کو ایک طرف رکھیں کہ زمین اس کے مقابلے میں ریت کے دانے سے بھی کم ہے، کیا زمین میں موجود اتنے بڑے پہاڑ کاغذ پر کئی فارمولوں اور قوانین فزکس کے نتیجے میں ہو سکتے ہیں، اور اتنے پہاڑوں کی تعمیر کے لیے خام مواد اور مادہ کہاں سے آیا؟ کیا اگر کائنات ایک حادثے کا نتیجہ ہوتی اور اتیسٹوں کے دعوے کے مطابق قوانین فزکس کی بنیاد پر ہوتی تو یہ اس سے کہیں چھوٹی نہ ہوتی اور اس میں اتنے بڑے پہاڑ نہ ہوتے؟ پہاڑوں کی عظمت اور کائنات کی وسعت خود بخود خالق کی موجودگی کا اثبات کرتی ہے، اگر کائنات ایک حادثے کا نتیجہ ہوتی تو یہ اتنی بڑی نہ ہوتی اور اس میں مادے کے بڑے انبار جیسے پہاڑ نہ ہوتے، بالکل ایک فیکٹری کی طرح جتنی چھوٹی ہوتی ہے اس کا مینجمنٹ کمزور ہوتا ہے لیکن جتنی ترقی یافتہ اور بڑی ہوتی ہے یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مجموعے کے پیچھے ایک مضبوط مینیجر ہے۔
بلا شبہ ایک بڑی اور ترقی یافتہ فیکٹری کو یہ لیبل نہیں لگایا جا سکتا کہ اس کا کوئی مینیجر نہیں اور صرف ورکرز کے قوانین کام کی وجہ سے یہ اتنی بڑی اور ترقی یافتہ ہو گئی، تو کیا اتنی بڑی کائنات جس میں اتنے بڑے پہاڑ ہیں اسے حادثاتی ہونے کا لیبل لگایا جا سکتا ہے؟!
اب آیت کے سائنسی مفهوم کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں:
آیت میں "نصب” یا "برپا” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، کوئی پہاڑ وقت کے گزرنے سے ہوا یا خود بخود وجود میں نہیں آیا، تمام پہاڑ زمین کی تہوں کی حرکت اور ان کے ٹکرانے سے ایک دم زمین کے اندر سے بلند ہوئے یا قرآن کی تعبیر کے مطابق برپا ہوئے۔ اب آیتوں کے تسلسل پر بھی توجہ کریں کہ آیتوں کے تسلسل میں زمین کی تہوں کی حرکت کا ذکر ہے:
اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑ دیئے گئے ہیں (۱۹) اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے (الغاشیہ: ۲۰)
لفظ "گسترانده شده” سائنسی نقطہ نظر سے بالکل زمین کی تہوں کی حرکت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو پہاڑوں کے برپا ہونے کے ساتھ آیا ہے، اور یہ دو سائنسی موضوعات ایک دوسرے سے بالکل غیر متعلق نہیں، اگر قرآن سائنسی مفاهیم سے خالی ہوتا تو لکھا جاتا کہ پدید آمد یا وجود میں آیا لیکن بہت درست سائنسی الفاظ جیسے نصب یا برپا استعمال کیے گئے ہیں!
نیچے کی تصویر ایک پہاڑ کی تعمیر کا طریقہ دکھاتی ہے، جیسا کہ دیکھتے ہیں، آیت کے مطابق دو تہوں کے ٹکرانے کے بعد پہاڑ زمین کے اندر سے برافراشتہ ہوتے ہیں، پھر اگلی آیت کے مطابق پہاڑ کے وجود میں آنے کے بعد زمین پھیلائی جاتی ہے یعنی دو تہوں مخالف سمتوں میں حرکت کرتی ہیں، جو قرآن کے لیے ایک قوی سائنسی معجزہ شمار ہوتا ہے۔

جواب دیں